Wednesday, October 15, 2014



کعبہ کی فریاد
سنسناتی رات کی پُرواہیاں ، میرا سادہ لبادہ اڑاتی ہوئی
وہ دن کے تپتے صحرا کی ، گرم آندھی مجھ سے ٹکراتی ہوئی
کبھی کبھار برستی تیز بارش ، میرے اندر سرایت کرتی ہوئی
اور آسمان سے دن رات مجھ پہ ، چاند و سورج نظر ٹکاے ہوے
یہ سب کچھ بھلا لگتا تھا مجھے صدیوں سے ، پر اب کہاں 

میری تڑپ میں بےقرار ، گرد آلود احرام اوڑھے ہوے
کبھی اونٹوں پر کبھی پیادل ، پاؤں لہولہان کیے
کوسوں دور سے ، مکہ کے پہاڑوں اور چھوٹے گھروں کے درمیاں
مجھ پر نگاہ پڑتے ہی ، سجدے میں گر جانے والے
یہ سب کچھ بھلا لگتا تھا مجھے صدیوں سے ، پر اب کہاں 

ایمان کا جذبہ لئے ، مجھے دیکھنے کی آس کو سینے میں دبایے
سچی توبہ اور رزق حلال سے ، سفر حجاز پہ نکلنے والے
میرے گرد چکّر لگاتے ، گرتے پڑتے بے جان جسم 
اور میرے پہلو میں جڑے ھجر اسود کو چومتے ہوے
یہ سب کچھ بھلا لگتا تھا مجھے صدیوں سے ، پر اب کہاں

بلند و بالا عمارتوں کے بیچ میں ، اب تو میں چھپ سا گیا ہوں
نہ رہے اونٹ نہ پیدل لوگ ، دور سے کسی کو میں کب نظر آتا ہوں
چاند بھی اونچی عمارتوں کی اوٹ سے آنکھ مچولی کرتا ہو جیسے
لاکھوں کا مجمع طواف کرتے ، ایک دوسرے کو کچل رہا ہو جیسے
یہ سب کچھ ہے کئی برسوں سے ، مجھے بھلا لگتا ہے اب کہاں

طواف ہوتا نہیں اب تو سیل فون کے بغیر ، ایسا لگتا ہے
زبان پر لبیک ہاتھ میں سیل ہونا ضروری ، ایسا لگتا ہے
میرا احترام اپنی جگہ ، پر سیلفی کلاک ٹاور کے سامنے بناتے ہیں
اور فرصت پاتے ہی یہاں سے ، ماڈرن مال میں شاپنگ کو لپکتے ہیں
یہ تماشہ چلا ہے چند برسوں سے ، مجھے بھلا لگتا ہے اب کہاں
اعجاز پتافی

No comments:

Post a Comment

The Guava Tree

  This is a unique Guava Tree on our doorstep that produces “unripe” fruit! Yes, the unripe, green and hard guavas are plucked by the young ...