کعبہ کی فریاد
|
سنسناتی رات کی پُرواہیاں
، میرا سادہ لبادہ اڑاتی ہوئی
|
وہ دن کے تپتے صحرا کی
، گرم آندھی مجھ سے ٹکراتی ہوئی
|
کبھی کبھار برستی تیز بارش
، میرے اندر سرایت کرتی ہوئی
|
اور آسمان سے دن رات مجھ
پہ ، چاند و سورج نظر ٹکاے ہوے
|
یہ سب کچھ بھلا لگتا تھا
مجھے صدیوں سے ، پر اب کہاں
|
|
میری تڑپ میں بےقرار ،
گرد آلود احرام اوڑھے ہوے
|
کبھی اونٹوں پر کبھی پیادل
، پاؤں لہولہان کیے
|
کوسوں دور سے ، مکہ کے
پہاڑوں اور چھوٹے گھروں کے درمیاں
|
مجھ پر نگاہ پڑتے ہی ،
سجدے میں گر جانے والے
|
یہ سب کچھ بھلا لگتا تھا
مجھے صدیوں سے ، پر اب کہاں
|
|
ایمان کا جذبہ لئے ، مجھے
دیکھنے کی آس کو سینے میں دبایے
|
سچی توبہ اور رزق حلال
سے ، سفر حجاز پہ نکلنے والے
|
میرے گرد چکّر لگاتے ،
گرتے پڑتے بے جان جسم
|
اور میرے پہلو میں جڑے
ھجر اسود کو چومتے ہوے
|
یہ سب کچھ بھلا لگتا تھا
مجھے صدیوں سے ، پر اب کہاں
|
|
بلند و بالا عمارتوں کے
بیچ میں ، اب تو میں چھپ سا گیا ہوں
|
نہ رہے اونٹ نہ پیدل لوگ
، دور سے کسی کو میں کب نظر آتا ہوں
|
چاند بھی اونچی عمارتوں
کی اوٹ سے آنکھ مچولی کرتا ہو جیسے
|
لاکھوں کا مجمع طواف کرتے
، ایک دوسرے کو کچل رہا ہو جیسے
|
یہ سب کچھ ہے کئی برسوں
سے ، مجھے بھلا لگتا ہے اب کہاں
|
|
طواف ہوتا نہیں اب تو سیل
فون کے بغیر ، ایسا لگتا ہے
|
زبان پر لبیک ہاتھ میں
سیل ہونا ضروری ، ایسا لگتا ہے
|
میرا احترام اپنی جگہ ،
پر سیلفی کلاک ٹاور کے سامنے بناتے ہیں
|
اور فرصت پاتے ہی یہاں
سے ، ماڈرن مال میں شاپنگ کو لپکتے ہیں
|
یہ تماشہ چلا ہے چند برسوں
سے ، مجھے بھلا لگتا ہے اب کہاں
|
اعجاز پتافی
|
Wednesday, October 15, 2014
Friday, October 10, 2014
نعت
|
کبھی تو میری بھی
طلبی ہوگی حبیب ے مصطفیٰ کے دربار میں
کبھی تو میں بھی آقا کے قدموں کے نشان چوموں
گا
|
زبان پہ ضبط رہا اگر،
آنکھوں میں سیلاب امڈ نہ آیا
اب تلک نہ بلانے کا پھر، میں سبب ضرور پوچھوں
گا
|
یہ گزارش بھی ہوگی
یہیں پڑا رہنے دیں مجھے
یا پھر اس غلام کو بار بار بلانے کا وعدہ لوں
گا
|
ایک بار وہاں پہنچوں پھر مجھے کوئی ہٹاے کیسے
اتنے برسوں کی تڑپ کو، چند دنوں میں، کیسے مٹا
پاؤں گا
|
لاکھوں کو میرے
مصطفیٰ بلاتے ہیں اپنی اور، ہر برس
اس سفر سے جو محروم ہوں، مجھے اس کا مداوا
کرنا ہوگا
|
کہتے ہیں اجازت چاہیے سفر ے دیار ے نبی کیلئے
کہاں بھٹکتا رہا ہوں، میری ہی غفلت کا نتیجہ
ہوگا
|
اس مرتبہ پھر، جو میرا بلاوا نا آیا اگر
وہاں جانے کی آس، میرے زندہ رہنے کا ہی بہانہ
ہوگا
|
روز ے محشر پہ کون کر پایگا جدا مجھے انسے
گا چھوڑوں نہ کبھی کو دامن کے آپ کیلئے شفاعت اپنی
|
اے خدا میرے نصیب میں جانے کا پروانہ ہوگا کہ
نہیں
میں تو بس آپ کے حضور
درود و سلام بھیجتا رہوں گا
|
Subscribe to:
Posts (Atom)
The Guava Tree
This is a unique Guava Tree on our doorstep that produces “unripe” fruit! Yes, the unripe, green and hard guavas are plucked by the young ...
-
This is a unique Guava Tree on our doorstep that produces “unripe” fruit! Yes, the unripe, green and hard guavas are plucked by the young ...
-
A terrified donkey was attached to a parasail and flown across the sky for 30 minutes in a sick publicity stunt over a beach on the S...
-
Part IV In early 1970s, there were three cinema houses namely Royal, Empire and Nigar (Al-Manzar was the forth cinema that started ...